سورہ الاحقاف
سورة الأحقاف Sūrat al-Aḥqāf سورت الأحقاف | |
---|---|
----
| |
دور نزول | مکی |
دیگر نام (انگریزی) | The Dunes, The Sandhills, The Sand-Dunes |
عددِ پارہ | 26 واں پارہ |
اعداد و شمار | 4 رکوع, 35 آیات |
قرآن مقدس |
---|
متعلقہ مضامین |
قرآن مجید کی 46 ویں سورت جو 26 ویں پارے کے ساتھ شروع ہوتی ہے، اس سورت میں 4 رکوع اور 35 آیات ہیں۔
نام
آیت نمبر 21 کے فقرے اذ انذر قومہ بالاحقاف سے ماخوذ ہے
زمانۂ نزول
مزید دیکھیے : الاحقاف آیت 10، الاحقاف آیت 15، الاحقاف آیت 35
اس سورت کا زمانۂ نزول ایک تاریخی واقعہ سے متعین ہو جاتا ہے جس کا ذکر آیت 29 تا 32 میں آیا ہے۔ ان آیات میں جنوں کے آنے اور قرآن سن کر واپس جانے کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ حدیث و سیرت کی متفق علیہ روایات کی رو سے اس وقت پیش آیا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طائف سے مکہ معظمہ کی طرف پلٹتے ہوئے نخلہ کے مقام پر ٹھیرے تھے اور تمام معتبر تاریخی روایات کے مطابق آپ کے طائف تشریف لے جانے کا واقعہ ہجرت سے تین سال پہلے کا ہے لہٰذا یہ متعین ہو جاتا ہے کہ یہ سورت 10 نبوی کے آخر یا 11 نبوی کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی۔
تاریخی پس منظر
10 نبوی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں انتہائی سختی کا سال تھا۔ تین برس سے قریش کے تمام قبیلوں نے مل کر بنی ہاشم اور مسلمانوں کا مکمل مقاطعہ کر رکھا تھا اور حضور اپنے خاندان اور اپنے اصحاب کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور تھے۔ قریش کے لوگوں نے ہر طرف سے اس محلے کی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس سے گذر کر کسی قسم کی رسد اندر نہ پہنچ سکتی تھی۔ صرف حج کے زمانے میں یہ محصورین نکل کر کچھ خریداری کر سکتے تھے، مگر ابو لہب جب بھی ان میں سے کسی کو بازار کی طرف یا کسی تجارتی قافلے کی طرف جاتے دیکھتا، پکار کر تاجروں سے کہہ دیتا کہ جو چیز یہ خریدنا چاہیں اس کی قیمت اتنی زیادہ بتاؤ کہ یہ نہ خرید سکیں، پھر وہ چیز میں تم سے خرید لوں گا اور تمھارا نقصان نہ ہونے دوں گا۔ متواتر تین سال کے اس مقاطعے نے مسلمانوں اور بنی ہاشم کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اور ان پر ایسے ایسے سخت وقت گذر گئے تھے جن میں بسا اوقات گھاس اور پتے کھانے کی نوبت آ جاتی تھی۔
خدا خدا کر کے یہ محاصرہ اس سال ٹوٹا ہی تھا کہ حضور کے چچا ابو طالب، جو دس سال سے آپ کے لیے ڈھال بنے ہوئے تھے، وفات پا گئے اور اس سانحے پر بمشکل ایک ماہ گذرا تھا کہ آپ کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا بھی انتقال فرما گئیں جن کی ذات آغازِ نبوت سے لے کر اس وقت تک آپ کے لیے وجہ سکون و تسلی بنی رہی تھی۔ اس پے در پے صدموں اور تکلیفوں کی وجہ سے حضور اس سال کو "عام الحزن" (رنج و غم کا سال) فرمایا کر تے تھے۔
حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات کے بعد کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابلے میں اور زیادہ دلیر ہو گئے۔ پہلے سے زیادہ آپ کو تنگ کرنے لگے حتٰی کہ آپ کا گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو گیا۔ اسی زمانے کا یہ واقعہ ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ ایک روز قریش کے اوباشوں میں سے ایک شخص نے سر بازار آپ کے سر پر مٹی پھینک دی۔
آخر کار آپ اس ارادے سے طائف تشریف لے گئے کہ بنی ثقیف کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انھیں کم از کم اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں۔ آپ کو اس وقت کوئی سواری تک میسر نہ تھی۔ مکہ سے طائف تک کا سارا سفر آپ نے پیدل طے کیا۔ بعض روایات کی رو سے آپ تنہا تشریف لے گئے تھے اور بعض روایات کے مطابق آپ کے ساتھ صرف حضرت زید بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ تھے۔ وہاں پہنچ کر چند روز آپ نے قیام کیا اور ثقیف کے سرداروں اور معززین میں سے ایک ایک کے پاس جا کر بات کی۔ مگر انھوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی کوئی بات نہ مانی، بلکہ آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا کہ ان کے شہر سے نکل جائیں کیونکہ ان کو اندیشہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کی تبلیغ ان نوجوانوں کو "بگاڑ" نہ دے۔ مجبوراً آپ کو طائف چھوڑ دینا پڑا۔ جب آپ وہاں سے نکلنے لگے تو ثقیف کے سرداروں نے اپنے ہاں کے لفنگوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ راستے کے دونوں طرف دور تک آپ پر آوازے کستے، گالیاں دیتے اور پتھر مارتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ زخموں سے چور ہو گئے اور آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں۔ اس حالت میں آپ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے اور اللہ تعالٰی سے عرض کیا:
” | خداوندا! میں تیرے ہی حضور اپنی بے بسی و بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین، تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے، مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پا لے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں، مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہو جائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے۔ مجھ اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہو جاؤں۔ تیری مرضی پر راضی ہوں یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں | “ |
دل شکستہ و غمگین پلٹ کر جب آپ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام سامنے تھے۔ انھوں نے پکار کر کہا "آپ کی قوم نے جو کچھ آپ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا، اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے، آپ جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں "۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو سلام عرض کیا "آپ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں "۔ آپ نے جواب دیا "نہیں، بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کریں گے "۔[2]
اس کے بعد آپ چند روز نخلہ کے مقام پر جا کر ٹھہر گئے۔ پریشان تھے کہ اب کیسے مکہ واپس جاؤں۔ طائف میں جو کچھ گذری ہے اس کی خبریں وہاں پہنچ چکی ہوں گی۔ اس کے بعد تو کفار پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہو جائیں گے۔ انہی ایام میں ایک روز رات کو آپ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گذر ہوا، انھوں نے قرآن سنا، ایمان لائے، واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی اور اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو یہ خوشخبری سنائی کہ انسان چاہے آپ کی دعوت سے بھاگ رہے ہوں، مگر بہت سے جن اس کے گرویدہ ہو گئے ہیں اور وہ اسے اپنی جنس میں پھیلا رہے ہیں۔
موضوع اور مباحث
یہ حالات تھے جن میں یہ سورت نازل ہوئی۔ جو شخص بھی ایک طرف ان حالات نزول کو دیکھے گا اور دوسری طرف اس سورت کو بغور پڑھے گا اسے اس امر میں کوئی شبہ نہ رہے گا کہ فی الواقع یہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کلام نہیں ہے بلکہ "اس کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے "۔ اس لیے کہ اول سے آخر تک پوری سورت میں کہیں ان انسانی جذبات و تاثرات کا ایک ادنٰی شائبہ تک نہیں پایا جاتا جو ان حالات سے گذرنے والے انسان کے اندر فطری طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کلام ہوتا، جنہیں پے در پے صدمات اور مصائب کے بے پناہ ہجوم اور طائف کے تازہ ترین چرکے نے خستہ حالی کی انتہا کو پہنچا دیا تھا، تو اس سورت میں کہیں تو ان کیفیات کا عکس نظر آتا جو اس وقت آپ کے دل پر گذر رہی تھیں۔ مندرجہ بالا دعا کو دیکھیے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنا کلام ہے، اس کا لفظ لفظ ان کیفیات سے لبریز ہے۔ مگر یہ سورت جو اسی زمانے اور انہی حالات میں آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوئی ہے، ان کے ہر اثر سے قطعی خالی ہے۔
سورت کا موضوع کفار کو ان گمراہیوں کے نتائج سے خبردار کرنا ہے جن میں وہ نہ صرف مبتلا تھے، بلکہ بڑے اصرار اور غرور و استکبار کے ساتھ ان پر جمے ہوئے تھے اور الٹا اُس شخص کو ہدفِ ملامت بنا رہے تھے جو انھیں ان گمراہیوں سے نکالنے کے لیے کوشاں تھا۔ ان کے نزدیک دنیا کی حیثیت محض ایک بے مقصد کھلونے کی تھی اور اس کے اندر آپ کو وہ غیر جواب دہ مخلوق سمجھ رہے تھے۔ توحید کی دعوت ان کے خیال میں باطل تھی اور انھیں اصرار تھا کہ ان کے معبود واقعی خدا کے شریک ہیں۔ وہ قرآن کے متعلق یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ یہ خداوند عالم کا کلام ہے۔ رسالت کا ایک عجیب جاہلانہ تصور ان کے ذہن میں تھا اور اس کی بنا پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دعوائے رسالت کو جانچنے کے لیے وہ طرح طرح کے نرالے معیار تجویز کر رہے تھے۔ ان کے نزدیک اسلام کے برحق نہ ہونے کا ایک بڑا ثبوت یہ تھا کہ ان کے شیوخ اور بڑے بڑے قبائلی سردار اور ان کی قوم کے بوجھ بجھکڑ اسے نہیں مان رہے ہیں اور صرف چند نوجوان، چند غریب لوگ اور چند غلام ہی اس پر ایمان لائے ہیں۔ وہ قیامت اور حیات بعد الموت اور جزا و سزا کی باتوں کو ایک من گھڑت افسانہ سمجھتے تھے اور ان کا خیال یہ تھا ان چیزوں کا وقوع خارج از امکان ہے۔
اس سورت میں بالاختصار انہی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی مدلل تردید کی گئی ہے اور کفار کو خبردار کیا گیا ہے تم اگر عقل و دلیل سے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے تعصب اور ہٹ دھرمی سے کام لے کر قرآن کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کو رد کردو گے تو آپ اپنا ہی انجام خراب کرو گے۔